Dec 16, 2013

صحیح راستہ




محمد شہیر شجاعت

خوبصورت سنگ مرمر کا فرش ۔۔۔ اور اس پر بچھی انتہائی دبیز قالین ۔۔۔۔۔۔ اس میں سجی  ایک خوبصورت مجلس ۔۔۔۔۔ جو کہ تہذیب کی الگ ہی نشاندہی کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ دیوار سادہ مگر ان میں عجب ہی خوبصورتی کہ طبیعت ہی بہل جائے ۔۔۔ چھت پر لگا بہترین فانوس چمچما تا ہوا اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے ۔۔۔   اور بھی بے انتہا قیمتی و نادر اشیاء کا مرکّز یہ دربار اور اس میں سجا بادشاہ سلامت کا تخت جس میں بادشاہ سلامت جلوہ افروز ہیں ۔۔۔ دربار سجا ہوا ہے ۔۔ مجلس میں درباری  رونق افروز ہیں ۔۔۔ مختلف جگہوں سے آئے یہ درباری عام و خاص ہر قسم  سے تعلق رکھتے ہیں ، اور اپنی روئیداد بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔۔۔
چہ جائیکہ ۔۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بے خبر نہیں ہیں ۔۔ انہوں نے اپنی سلطنت اس طرح سے سنواری ہے کہ کوئی شخص بادشاہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے ۔۔۔ رعایا اس کے گن گاتی ہے ۔۔۔ اس کا بنا یا ہوا نظام۔۔ انتہائی شفاف اور بہترین ہے۔۔۔ وہ کریم و رحیم مشہور ہے ۔۔۔ لیکن کہیں کہیں اسے ظالم بھی کہنے سے کوئی نہیں چوکتا ۔۔ جہاں اس  کے بنائے ہوئے قوانین کی رو گردانی ہوتی ہے ۔۔ اس کے خلاف ہر جرم کے مطابق سزا مقرر کر رکھی ہے ۔۔۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے ۔۔۔ اس بات سے اس کی رعایا کا بھی انکار نہیں ہے ۔۔ اس کی نظر ہر ہر راعی پر ہے ۔۔۔ کسی کو کھلی چھوٹ دے کر رکھتا ہے کہ شاید سدھر جائے لیکن جب وہ نہیں سدھرتا تو اس کے محافظین اسے گرفتار کر کے لے آتے ہیں اور اس کو اپنے کئے کی سزا ملتی ہے ۔۔ اور جو راعی اس کی سلطنت میں اس کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا رہتا ہے ۔۔۔ اسے انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا ہے ۔۔۔۔
یہ بادشاہ اپنی مثال آپ ہے ۔۔۔ اس کے ڈنکے دور دور تک بجتے ہیں ۔۔ ہر ایک کو اس بادشاہ کے روبرو ہونے کا اشتیاق ہے ۔۔۔  بادشاہ نے بھی ہر عام و خاص کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں ۔۔ فقیر ہو یا  رئیس ۔۔ معذور ہو یا سالم ۔۔۔۔ جوان ہو یا بوڑھا یا بچہ ۔۔ سب کے لئے اس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں ۔۔۔۔ رعایا آتی ہے اپنا سوال اپنی شکایات پیش کرتی ہے ۔۔۔ اور بادشاہ اس کو بخوبی سنتا ہے اور ان کو پورا کرنے میں دیر نہیں کرتا ۔۔
اتنی بڑی سلطنت میں بسے لوگوں میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ بھی بادشاہ سلامت سے ملاقات کریں ۔۔۔ اور دو بدو بادشاہ سلامت سے ہمکلام ہوں ۔۔۔  کچھ تو لاعلمی کی وجہ سے پہنچ نہیں پاتے کہ کیسے بادشاہ تک رسائی حاصل کی جائے ؟ اور کچھ  کو علم نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت کا دربار کہاں سجا ہے ۔۔ ؟ یا کوئی بھی وجہ ۔۔
انہیں میں سے ایک  اصغر ہے ۔۔۔ اسکی بھی دلی تمنا ہے کہ اس کی بھی بادشاہ سلامت سے ملاقات ہو ۔۔ اور اس سلسلے میں وہ روز صبح شام اپنی روز مرہ کی مشغولیات کے دوران بھی سوچتا رہتا ہے کہ ایسا کیا ہو کہ اس کی ملاقات ۔۔ بادشاہ سلامت سے ہو جائے ۔۔۔ اور اس کی دلی تمنا پوری ہو ۔۔ اس کا خواب یقین میں بدل جائے ۔
                یار چھوڑ۔۔ دیکھ سڑک سنسان ہے ۔۔ نکال لے گاڑی ۔۔۔کوئی پولیس والا بھی نہیں ہے ۔۔ کوئی چالان نہیں ہوگا ۔۔ امجد نے اصغر سے کہا جو کہ ڈرائیو کر رہا تھا اور امجد اس کے ساتھ ہمسفر تھا ۔۔دونوں اپنی جاب سے واپس ایک ساتھ ہی آتے تھے ۔۔ اور ایک ہی فلیٹ میں رہتے تھے ۔۔  امجد کو اکثر اصغر کی سوچ پہ ہنسی آتی تھی کہ ۔۔ یہ بندہ بالکل ہی پاگل ہے ۔۔۔ سگنل توڑنے پہ برا مان جاتا ہے ۔ سڑک پہ تھوک دو تو ٹوک دیتا ہے ۔۔۔ غسل کے دوران پانی کے شور سے چڑ جاتا ہے کہ کیا اتنا پانی ضایع کر رہے ہو ؟ ۔۔۔ جتنی ضرورت ہو اتنا ہی استعمال کرو ۔۔۔ اگر بلا ضرورت بلب بھی جل رہا ہو تو ۔۔ اصغر کے دماغ کا بلب جل جاتا ہے ۔۔۔۔ عجیب یار ۔۔۔ کیا چیز ہے یہ ۔؟
                اصغر نے تیکھی نظروں سے امجد کی جاب دیکھا  ۔۔ یار امجد اگر میں تین منٹ یہاں رک گیا تو کونسا میرا کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا ۔۔۔ اور پھر تو تو جانتا ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت نے نہ جانے کہاں کہاں اپنی ۔۔ سی آئی ڈی ۔۔ پھیلا رکھی ہے ۔۔۔ کسی نے دیکھ بھی لیا تو ساری محنت پہ پانی پھر جائے گا ۔۔۔۔  میری  ساکھ خراب ہوجائے گی ۔۔ اور میں اپنی ساکھ بالکل بھی نہیں خراب کرنا چاہتا ۔۔ خصوصاً بادشاہ سلامت کے سامنے ۔۔ تّو ناراض ہوتا ہے تو ہوتا رہ  ۔۔ اپنے کو کیا لینا دینا ۔۔!!!  اچھا یہ تو بتا ۔۔۔ آج جو باس نے ٹاسک دیا تھا کہ  عابد صاحب  کی اسائنمنٹ پوری کرنی ہے ۔۔ دو دنوں کے اندر،  اس کےلئے کیا سوچا ہے ؟  ۔۔۔ چل چھوڑنا ٹاسک کو ۔۔ ابھی تو بہت بھوک لگی ہے جلدی سے گھر پہنچنے کی کر ۔۔ پھر ڈسکس کرتے ہیں ۔۔ امجد نے بات کو ٹالا ۔۔ کیونکہ وہ پھر سے اصغر کے لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔ اصغر نے بھی ہلکی سی ہنسی کے ساتھ گئیر ڈالا اور گاڑی آگے بڑھادی ۔۔ کیونکہ سگنل کی بتی ہری ہو چکی تھی ۔۔
                                       آج  اصغر نے  ایک شخص سے ملنے بھی جانا تھا ۔۔ اسے کسی نے پرویز کا بتایا تھا کہ ۔۔ وہ بادشاہ کے دربار کا دربان ہے ۔۔ اور وہ اسی شہر میں آیا ہوا ہے ۔۔۔  اصغر آج سارا دن یہی سوچتا رہا تھا کہ دربان سے کیسے ملا جائے کس طرح سے سفارش کرنے کی  بات کی جائے کہ دربان بادشاہ سلامت سے اس سے ملنے کی خواہش   پوری کروالے ۔ اصغر  فریش ہو کر  جانے کی تیاری کرنے لگا  ۔۔ اتنے میں امجد بھی اس کے غرفے میں آگیا ۔۔۔ جب اصغر کو تیاری کرتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا کہ ۔۔ اصغر میاں  کہاں کی تیاری ہے ؟
ایک بہت ہی ضروری  اور اہم کام سے جا رہا ہوں دعا کرنا میری مراد پوری ہوجائے ۔۔ اصغر نے فوراً جواب دیا ۔۔ اصغر کے لہجے کا اضطراب بخوبی دیکھا جا سکتا تھا ۔۔۔
یار ایسی کیا مراد ہے جس کے لئے اتنے  مضطرب ہو ؟ امجد نے سوال داغ دیا
یار تّو تو جانتا ہے ۔۔۔ میری بادشاہ سلامت سے ملنے کی خواہش ۔۔۔ بس اسی سلسلے میں کسی سے ملنے جا رہا ہوں کہ شاید اس کی سفارش سے میرا کام ہو جائے ۔  اصغر یہ کہتے ہوئے  صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا  ۔
 یار سیدھا دربار چلا جا ۔۔۔ کیوں کسی کی منتیں کررہا ہے جا کر ۔۔؟  امجد نے پھر ایک چوٹ کر دی
تیری نہیں سمجھ آئے گی  بادشاہ سلامت  ہیں  تھوڑی سفارش ہو گئی تو اچھا پروٹوکول بھی تو ملے گا ۔۔ اصغر نے  ہنستے ہوئے کہا
اچھا چل ٹھیک ہے ۔۔۔ اللہ تیری مراد پوری فرمائے ۔۔۔ امجد نے زور کا قہقہہ لگایا اور اصغر کو وداع کیا۔
امجد خوش مزاج لڑکا تھا ۔۔۔ ذہین بھی تھا ۔۔۔ وہ اصغر کا دل نہیں توڑنا چاہتاتھا اسی لئے اسے ٹوکتا نہیں تھا ۔۔ لیکن باتوں باتوں میں سمجھا ضرور یتا تھا ۔۔۔  امجد ایک  متوسط گھرانے کا  چشم و چراغ تھا ۔۔۔ اور  اس کی تربیت نہایت ہی  اچھی کی گئی تھی کیونکہ اس کے والد محترم  بذات خود کالج کے پروفیسر تھے اور اسلامیات پڑھایا کرتے تھے ۔۔۔ بس  امجد نے  ابھی ثانوی کا امتحان ہی پاس کیا  تھا کہ اس کے والد محترم کا رب کے دربار سے بلاوا آگیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔ تب سے امجد پر سارے گھر کی ذمہ داریاں آگئیں ۔۔ لیکن والد صاحب اس کی ایسی تربیت کر گئے تھے کہ اس کے  لِیے اتنا مشکل نہ رہا یہ سب کرنا اور اس نے  بخوبی  سنبھال لیا تھا ۔۔۔ اور والدہ کے شدید اصرار پر اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھا ۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ گھر پر کم اور ایک  فلیٹ میں زیادہ رہتا تھا ۔۔ جس سے اسے کالج  و نوکری آنے جانے میں آسانی رہتی تھی ۔۔۔ اور یہ فلیٹ اس لئے آسان ہوگیا تھا کیونکہ اسے ایک بہترین ساتھی مل گیا تھا ۔۔
 اصغر کی صورت میں ۔۔ جو کہ انتہائی قابل تھا  اور مہذب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس کی فیملی گاوں میں رہتی تھی اور اصغر نوکری کے سلسلے میں شہر میں رہتا تھا ۔۔۔ اصغر نے  پچھلے سال ہی اپنا ایم بی اے مکمل کیا تھا ۔۔ چونکہ اس کو پہلے ہی کافی تجربہ تھا اپنے کام کا ۔۔ تو  ایم بی اے کے مکمل ہوتے ہی اسے ایک بہت ہی اچھی فرم میں ملازمت بھی مل گئی تھی ۔۔ اور اس نے اپنے ساتھ امجد کو بھی نوکری دلوادی تھی تو یہ ساتھ بہت ہی اچھا جا رہا تھا ۔۔
ان دونوں میں صرف ایک فرق تھا ۔۔۔ دونوں ہی چاہتے تھے کہ ان کی ملاقات بادشاہ سلامت سے ہوجائے  ۔۔۔ اصغر سوچتا تھا کہ میں کسی طرح ایسی سفارش تلاش کروں کہ ۔۔ بس بادشاہ سلامت کے ہاں مقبول ہو جاوں اور میرا بلاوا آجائے ۔۔۔ جبکہ امجد کہتا تھا کہ میں کچھ ایسا کر جاوں کہ بادشاہ سلامت خود ہی مجھے بلائیں  ۔۔ وہ اپنی شخصیت میں ایک مثال تھا ۔۔ مزاح ہو یا خطاب ہر فن مولا تھا آخر بہترین والدین کی تربیت کا اثر بھی تو ہونا تھا ۔
ٹنگ ٹونگ ۔۔ ٹنگ ٹونگ ۔۔ کون جناب ؟ دربان کی آواز دروازے کے عقب سے سنائی دی تو اصغر کی کیفیت بچوں جیسی ہو گئی ۔۔۔ ہلکی ہلکی کپکاہٹ سی طاری ہوگئی اس کے جسم میں ۔۔۔
پھر آواز آئی ۔۔ جناب کون صاحب ہیں ؟
جی اصغر ۔۔ آپ پرویز صاحب ہیں ۔۔ دربان ِ دربار ؟
دروازہ کھل گیا ۔۔ اور ایک باریش لحیم شحیم ۔۔ ۔۔ آدمی نمودار ہوا ۔۔  جی جناب میں پرویز ہو ں دربان ِ دربار خاص ۔ آئیے اندر تشریف لے آئیے ۔
دربان اصغر کو بیٹھک میں بٹھا کر اندر چلا گیا ۔۔
سادہ  مگر  سلیقے سے سجایا ہوا گھر اپنے مہذب مکینوں کا پتہ دے رہاتھا ۔۔۔ اصغر  ابھی ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ  ۔۔ اتنے  میں دربان پانی کا جگ اور گلاس کی ٹرے  کے ساتھ حاضر ہو گیا ۔۔۔
جی جناب فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں  ؟ دربان نے وقت ضایع کیے بغیر  اصغر کی آمد کی وجہ جاننی چاہی۔
جی میرا نام اصغر ہے اور میں  کریم پور کا رہنے والا ہوں ۔۔۔ جاب وغیرہ کے سلسلے میں اسی شہر میں مقیم ہوں ۔۔ جبکہ میری ساری فیملی گاوں میں ہی رہائش پذیر ہے ۔۔ بہر حال میرے  آنے کی وجہ یہ بنی کہ آپ چونکہ بادشاہ سلامت کے دربان ہیں ۔۔ اور بادشاہ سلامت تک آپ کی اچھی پہنچ بھی ہوگی ۔۔۔   اور میرے دل میں بہت اشتیاق ہے کہ میں بادشاہ سلامت سے دو بدو ملاقات کروں ، اور یہ شرف کسی طرح مجھے حاصل ہو ۔۔ اس کے لیے میں ہر غلط عمل سے دور رہتا ہوں جس سے بادشاہ کو تکلیف ہو اور وہ مجھ سے ناراض ہوں اور انہیں خوش رکھنے کی میں پوری کوشش کرتا رہا ہوں کہ کبھی میری ملاقات خاص  بادشاہ سلامت سے ہوجائے ۔۔  تو آپ سے گزارش کرنے آیا تھا کہ
آپ ۔۔ اگر ررر ۔۔۔ میری سفارش ش ش ۔۔ کردیتے تو ۔۔ 111
شاید میری مراد پوری ہو جاتی۔۔۔۔۔
اصغر نے جھجھکتے  ہوئے اپنے آنے کا مقصد دربان کے گوش گزار کر ہی ڈالا ۔
ہمم ۔۔ تو یہ بات ہے ۔۔  دربان نے گہری سانس لی ۔۔ جیسے ساری بات اس کے بخوبی سمجھ آگئی ہو ۔
اتنے میں  کمرے کا اندرونی  دروازے کا پردہ ہلتا ہے ۔۔ یعنی  دربان کی زوجہ محترمہ  کا اشارہ ہے کہ دربان جی اندر آئیے ۔۔
دربان اندر جاتا ہے اور چائے بسکٹ سے بھرا ٹرے    لا کر اصغر کو پیش کرتا ہے ۔۔
نوش فرمائیے ۔۔ اصغر صاحب ۔۔
جی ضرور ۔۔ شکریہ ۔۔ ویسے تکلف کی ضرورت نہیں تھی جناب ۔۔ لیکن پھر بھی شکریہ ۔ اصغر نے  چائے کے کپ میں بسکٹ ڈبوتے ہوئے دربان کا شکریہ ادا کیا  ۔
دربان نے بھی چائے کا کپ اٹھا لیا ۔۔۔ اور ایک چسکی لی ۔۔۔
اصغر میاں ۔۔ دیکھو ۔۔۔ آپ کے لیئے میں سفارش کر تو دوں ۔۔ لیکن شاید میری سفارش سے آپ کی مراد اس حد تک پوری نہ ہو جس طرح کہ آپ کی خواہش ہے ۔۔  دربان نے کہنا شروع کیا ۔۔۔
جی جی بات مکمل کیجیئے میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔ اصغر کو اب تھوڑا سا ڈر سا لگنے لگا تھا یہ جملہ سن کر ۔
تو میں آپ کو ایک مشورہ دیئے دیتا ہوں ۔۔ ان  شاءا للہ اس پر عمل کرنے سے آپ کی بادشاہ سے ملنے کی خواہش نہایت ہی خوش اسلوبی سے  پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے ۔۔ بلکہ میں تو کہونگا کہ ضرور بالضرور پایہ تکمیل تک پہنچے گی ۔۔۔ دربان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
جی میں آپ کا مشورہ سننے کے لیے بے تاب ہوں ۔۔ بتائیے  مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟ اصغر نے  یکسو ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔
دیکھیے اصغر میاں ۔۔۔  بادشاہ سلامت سے ملنا ویسے تو کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے  ۔ جو چاہے جا کر ملاقات کر سکتا ہے بادشاہ سلامت تو چاہتے ہیں کہ ۔۔ ان کی رعایا ان سے روبرو ملا قات کیا کرے ۔۔ لیکن بہت کم ہی دربار تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ دروازے ہر وقت کھلے ہیں ۔۔ نہ جانے اس میں کیا راز ہے ۔۔۔ میرا پہلا مشورہ آپ کو یہی ہوگا کہ آپ بذات خود بھی اگر چاہیں تو دربار میں حاضری دے سکتے ہیں ۔۔ لیکن اگر پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو سفارش کی ضرورت ہے تو ۔۔۔ بادشاہ کے چار نہایت ہی قریبی وزیر ہیں ۔۔۔
انعام اللہ  صاحب
امین  صاحب
فرقان صاحب
اور
عرفان صاحب
آپ کو جا کر ان حضرات سے ملنا چاہیئے ۔۔۔ یہ آپ کے مقصد کے کامیاب ہونے کی بہترین کڑی ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔۔  
جی بہت بہتر ۔۔۔ لیکن میری ان حضرات سے ملاقات کہاں کب اور کیسے ہو سکتی ہے ؟ اصغر نے پوچھا
میں ان کے ملنے کے مقامات اور اوقات کار آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں ۔۔ آپ پھر اسی مناسبت سے  آگے  کے پلان کر سکتے ہیں ۔ دربان نے جواب دیا
جی نوازش آپ کی ۔۔  میں ضرور ان حضرات سے جا کر ملوں گا ۔۔۔ جس طرح بھی ممکن ہوا مجھ سے ۔۔ اصغر نے گرمجوشی کے ساتھ دربان سے مصا فحہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
دربان نے ایک پرچے پہ کچھ دیر ساری تفصیل لکھی اور اصغر کو دے دی ۔
اصغر نے وہ پرچا احتیاط سے اپنی جیب میں رکھا اور ۔۔۔ دربان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوا ۔

ہاں بھئی ۔۔ کیسی رہی تیری میٹنگ ؟  امجد نے اصغر کے غرفے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا جو کہ ساتھ میں چائے کی پیالی بھی اٹھا لایا تھا ۔۔ ایک پیالی اصغر کی طرف بڑھائی ۔
اصغر نے چسکی لی اور اور کہا ۔۔۔ اچھی رہی اور چند مزید  حضرات  کے نام سامنے آئے ہیں ۔۔ اب ان سے ملاقات کو سوچ رہا ہوں ۔
واہ بھئی ۔۔۔ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے ۔۔۔ ویسے کب ہو رہی ہیں یہ ملاقاتیں ۔۔ ؟  اور اب کے  اللہ کرے تیری  بادشاہ سے ملاقات ہو ہی جائے ۔۔  امجد نے اپنی بات مکمل کی ۔
 ان شا ء اللہ ضرور ۔۔ ویسے اب کے تو بھی چل ناں میرے ساتھ ۔۔ اپنی بات بھی کر لینا ۔۔ اصغر نے امجد کی طرف پلٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
نہیں بابا ۔۔ مجھے نہیں کسی سے بات کرنی ۔۔ اپنی تو پکی بات ہے ۔۔ بلاوا   خود آئے تو مزہ ہے ۔۔ ایسے نہیں ۔۔ ورنہ میں خود ہی دربار پہنچ جاونگا ۔۔ جب میرا دل  کرے گا ۔۔ ویسے اگر تجھے میری کوئی خدمت درکار ہے تو ۔۔ میں حاضر ہوں ۔۔ امجد نے جواب دیا ۔۔
چل مرضی ہے تیری ۔۔ اگر تیری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو ضرور بتاونگا ۔ اصغر نے بات ختم کی
اصغر نے ا  ن چاروں وزراء کے ملنے کے مقامات کا پتہ کیا ۔۔۔ اور  اگلے ہی دن آفس میں دو دن کی  چھٹی کی درخواست دے دی ۔۔ جو کہ منظور کر لی گئی ۔۔
اصغر نے  پہلے دن صبح  انعام اللہ صاحب اورشام  فرقان صاحب سے ملنے کا پروگرام بنایا ۔۔ کیونکہ دونوں کے مقامات آس پا س ہی تھے ۔۔  اور اگلے ہی دن صبح فجر کی نماز پڑھ کر ۔۔ روانہ ہو گیا ۔
السلام علیکم  جناب انعام اللہ صاحب  ۔۔ اصغر نے  مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔
وعلیکم السلام  جناب  ۔۔ انعام اللہ صاحب نے بھی گرمجوشی سے اصغر کا استقبال کیا ۔۔
جی یہ شال ۔۔ اور کچھ تحائف آپ کے لیے  لیتے آیا تھا ۔۔  براہ مہربانی قبول فرمالیجیے ۔۔ اصغر جو ساتھ ہی کچھ تحفے تحائف ساتھ لایا تھا ۔۔ پیش کر دیے ۔۔
انعام اللہ صاحب کے ایک خادم نے آگے بڑھ کر وہ تحائف ایک طرف رکھ دیے  ۔  اور انعام اللہ صاحب نے اصغر کا شکریہ ادا کیا اور اس کے آنے کا مقصد پوچھا ۔۔
جناب میری بہت عرصے ے تمنا ہے کہ کسی طرح میری ملاقات بادشاہ سلامت سے ہوجائے اور وہ ملاقات کچھ خاص ہو ۔۔ بس اسی سلسلے میں آپ سے بھی ملاقات کا شرف مل گیا ۔۔  آپ سے  یہ عرض ہے کہ آپ میری بادشاہ سلامت کے دربار میں سفارش کیجیے کہ وہ مجھے شرف ملاقات بخشنے   کا موقع عنایت فرما دیں ۔ اصغر نے  اس کے علاوہ اپنی ساری زندگی کی تگ و دو  انعام اللہ صاحب کے گوش گزار کر دی ۔
بہت اچھی  خواہش ہے بیٹا   ۔۔  لیکن یہ بھی جانتے ہوئے کہ بادشاہ سلامت کا دربار ہمیشہ ہر شخص کے لیے کھلا ہے  ۔۔ پھر بھی آپ مجھ سے سفارش   کے طلبگار ہیں کیوں ؟
آپ کو کیا لگتا ہے  بادشاہ سلامت میری سفارش سے  خوش ہونگے ؟ اور آپ کو خوب انعام و اکرام کے ساتھ طلب فرمائیں گے  ؟آپ کو بہت اچھا پروٹوکول مل جائے گا ؟ جبکہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بادشاہ سلامت اپنی ہر راعی سے واقف ہیں  ۔۔ وہ تو خود ہی چاہتے ہیں کہ  ان کی رعایا  ان کے دربار میں حاضر ہو کسی بھی وقت کسی بھی دن ۔۔۔۔ کوئی خاص دن یا خاص وقت نہیں مقرر کر رکھا ۔۔  جب مرضی جو مرضی  حاضر ہو جائے ۔۔۔  اور رعایا کی حاضری بادشاہ کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔۔ بادشاہ سلامت ۔۔ انہیں انعام و اکرام سے نوازتے ہیں ۔۔ ان کی مرادیں پوری کرتے ہیں ۔۔ ان کو  خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔۔  مختصر یہ کہ بادشاہ سلامت کے دربار میں کھلی اجازت ہونے کے باوجود آپ کا سفارش  پر اپنا وقت صڑف کرنا اور اتنا طویل وقت برباد کردینا کسی طور بھی آپ کو زیب نہیں دیتا ۔۔  سفارش بادشاہ سلامت کو ناراض بھی کر سکتی ہے کہ جب ان کے دربار ہر شخص کے لیے کھلے ہیں تو پھر کیوں ان کے  مواطن سفارش طلب کر تے پھر رہے ہیں ۔ ؟  آپ  ماشاءاللہ ایک اچھی شخصیت و سوچ کے مالک ہیں ۔۔ میرا مشورہ آپ کو یہی ہو گا ۔۔ کہ آپ پہلی ہی فرصت میں  سیدھا دربار کے لیے رخت سفر باندھیے  ۔۔۔ پھر دیکھیے آپ کا کیسے استقبال کیا جاتا ہے ۔۔
انعام اللہ صاحب سے ملاقات کافی معنی  خیز رہی ۔۔۔ ان کے گھر سے نکلتے وقت اس کا دماغ بالکل صآف ہو چکا تھا   ۔۔ اب اس نے باقی تمام  ملاقات کے پروگرام  کے ارادے ترک کیے اور سیدھا گھر کو روانہ ہو ۔
امجد ۔۔ تجھے بھی شوق ہے ناں بادشاہ سلامت کے روبرو ہونے کا ۔۔ چل آج ہی دونوں دربار کے لیے نکلتے ہیں ۔۔۔ مجھے اب کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ ہم اب جائیں گے سیدھا دربار اور بادشاہ سلامت سے ملاقات کر کر ہی واپس آئیں گے ۔۔۔۔ اور امجد کی خوشی بھی دیدنی تھی اصغر کو صحیح راستے  تک پہنچتے دیکھ کر ۔۔۔ اور پھر دونوں اگلے دن کی پلاننگ کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد








Nov 26, 2013

i M Mala

پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع کردار ملالہ یوسف زئی کی لکھی ہوئی کتاب I am Malala پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کون محب وطن اور کون غدار ہے۔

PDF ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیئے لنک نیچے موجود ہے
 


http://adf.ly/YWNdW

Mar 23, 2013

شاعر مسرق

 مشرق علامہ اقبال کی شاعری ملت اسلامیہ کی وحدت اور شیرازہ کی بلندی کی عکاسی ہے ۔اقبال کی شاعری آج بھی اتحاد امت اور اسلامی انقلاب کی دعوت دیتی یے ۔علامہ اقبال نے شک اور نا امیدی کے اندھیروں میں مسلمانوں کے دلوں میں یقین اور امید کی شمعیں روشن کرنے کی عظیم خدمت انجام دی ۔انہوںنے کہا کہ اقبال کی شاعری نوجوان طبقے سے بھی مخاطب ہے اور اسے ملک وملت کا مستقبل قرار دیتے ہوئے اس سے سیرت وکردار کی بلندی تک پہنچنے کا تقاضا کرتی ہے اور موجودہ اعصاب شکن حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پیغام اقبال جو کہ اسلام کا آئینہ دار ہے اس کو عام کیا جائے۔

قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

اقبال

شاعر مسرق

 مشرق علامہ اقبال کی شاعری ملت اسلامیہ کی وحدت اور شیرازہ کی بلندی کی عکاسی ہے ۔اقبال کی شاعری آج بھی اتحاد امت اور اسلامی انقلاب کی دعوت دیتی یے ۔علامہ اقبال نے شک اور نا امیدی کے اندھیروں میں مسلمانوں کے دلوں میں یقین اور امید کی شمعیں روشن کرنے کی عظیم خدمت انجام دی ۔انہوںنے کہا کہ اقبال کی شاعری نوجوان طبقے سے بھی مخاطب ہے اور اسے ملک وملت کا مستقبل قرار دیتے ہوئے اس سے سیرت وکردار کی بلندی تک پہنچنے کا تقاضا کرتی ہے اور موجودہ اعصاب شکن حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پیغام اقبال جو کہ اسلام کا آئینہ دار ہے اس کو عام کیا جائے۔

قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

اقبال

قوم سو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔




صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ پانچ سال کس طرح جمہوریت کو قائم رکھا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر چھ ماہ بعد حکومت کے جانے کے دعوے کیے جاتے رہے لیکن حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔۔۔۔۔۔واقعی زرداری صاحب یہ آپ ہی ہیں جو اس طرح حکومت کو چلاسکے۔۔۔۔ ۔کوئی اور ہوتا تو کب کا سب کچھ چھوڑ چھاڑ پتلی گلی سے نکل لیتا۔۔۔۔لیکن قوم آپ کے درد میں ہر لمحہ ساتھ رہی ۔ حالانکہ آپ کے دور میں انہیں صرف درد ملا ۔۔۔ زرداری صاحب حقیقت یہ بھی ہے کہ ساری تکالیف اور پریشانیوں کے باوجود قوم آپ کو اپنی کیفیت تک نہیں بتا پائی کہ کہیںآپ اور آپ کی حکومت دلبرداشتہ ہوکر ’’ مزید کچھ‘‘ ایسا ویسا نا کردیں ۔۔۔۔۔۔۔یقین کیجیے زرداری جی پوری قوم آپ کے اس تکلیف دہ بیان سے مزید دکھی ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ وہ آپ کے الفاظ کو محسوس کرتی ہے آصف بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے قوم کی خواہش ہے کہ اگر دوبارہ آپ کو حکومت کا موقع ملے تو ’’ خدا کے لیے صاف انکار کردیں‘‘ کہ مجھ میں مزید ایسی حکومت چلانے کی ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ یقین کریں کہ اس فیصلے پر لوگ بالکل ناراض نہیں ہوںگے ۔۔۔۔بلکہ آپ کی صحت کے لیے بھی دعاگو ہوںگے۔۔۔۔کہ ’’اللہ آپ کے لیے آسانی پیدا کرے‘‘۔ آپ یہ بھی یقین کریں کہ آپ کے بیان کے بعد لوگ آپس میں باتیں کررہے ہیں کہ اتنی تکلیف اور پریشانی سے تو بہتر تھا کہ ۔۔۔۔زرداری جی ۔۔۔۔۔جیل میں ہی آرام کرتے رہتے ۔۔۔وہاں بیمار ہونے کے بعد ملک سے باہر جاکر علاج کرانے کی سہولت بھی دستیاب تھی۔۔۔۔اب تک تو آپ لندن یا دبئی کو پیارے ہوچکے اگر جیل میں ہوتے زرداری جی۔۔۔۔۔۔۔چلیں کوئی بات نہیں آپ اور آپ کے دوست ذہین ہیں اس لیے دوبارہ حکومت حکومت کھیلنے کے بجائے کوئی اور کھیل کھیلیں تو آپ کی اور پوری قوم کی صحت بھی اچھی رہے گی۔۔۔۔ویسے زرداری صاحب آپ نے چند روز قبل جب یہ کہا تھا کہ’’ ہم غریبوں کو ڈھونڈ ، ڈھونڈ کر ان کی مدد کررہے ہیں‘‘ تب ہی قوم آپ کی محنت اور محبت کی معترف ہوچکی تھی۔۔۔۔۔لیکن لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس نیک کام میں آپ عام پاکستانیوں کو بھی شامل کرلیتے تو وہ بھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتے کہ آپ کس طرح غریبوں کو ’’ڈھونڈرہے ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ویسے بھی آپ اور آپ کے ساتھیوں کا جو دائرہ ہے وہاں غر یبوں کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔۔۔۔ظاہرہے آپ تو امدادی کام بھی اسلامی احکامات کے عین مطابق کررہے ہونگے ۔ اسلام میں واضح ہے کہ امداد دینے کے لیے پہلے خاندان اور پھر پڑوسیوں کا حق ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔لوگوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ غریبوں کی مدد کے چکر میں کہیں زرداری صاحب تو غریب نہیں ہوچکے۔۔۔ویسے بھی جو کچھ تھا بے چاری بینظیر ہی تو جہیز میں لائی تھیں وہ اللہ کو پیاری ہوئیں تو ان کی جائداد کو سنبھالنے کی اضافی ذمہ داری کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں ملا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال پوری قوم کو اطمینان ہے کہ اب آصف زرداری اور ان کی حکومت کے سکون کے دن آنے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔قوم کی دعا ہے کہ یہ لوگ آئندہ بھی حکومت سے دور سکون سے رہیںبلکہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال تک حکومت میں رہنے والا ہر آدمی اب اپنے گھروں میں رہے ان کے قریب آنے کی بھی ’’ زحمت نا کرے‘‘۔ اب موجودہ حکومت کا وقت ختم ہونے والا ہے ۔۔۔۔پیپلز پارٹی اور جمہوریت کی ’’اوقات‘‘ تو اس حکومت نے پہلے ہی ختم کردی ہے۔مگر سمجھ میںنہیں آرہا کہ حکومت کے آخری ایام شروع ہوجانے کے باوجود اسے ناکام بنانے کے لیے کون سی قوت کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں تخریبی کارروائیاں کررہی ہے؟۔
مان لیتے ہیں کہ سب کو اس دور میںباآسانی شہادت ملتی رہی۔لیکن بہتر ہوتا کہ اس اعزاز کا موقع حکمرانوں کو بھی مل جاتا ۔ پوری قوم کی بھی حکمرانوں کے لیے اسی طرح کی خواہش ہے ۔ ان کی خواہش سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی حکمرانوں سے بہت محبت کرتے ہیں جیسے حکمران ان سے کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عوامی خدمت کرتے ہوئے شہید ہونے کے بڑے درجات ہیں ۔ خیر اللہ رحم کرے ہم سب پر ۔۔۔۔سنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید گڑبڑ ہونے والی ہے؟ لیکن کیوں ؟ اس کا جواب تو وزیر داخلہ کے پاس بھی نہیں ہے ، وہ تو بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ ’’ آنے والے دنوں میں بہت گڑبڑ ہونے والی ہے ‘‘۔چلو ان کی بات مان کرخاموش ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔اور بھلا کیا کرسکتے ہیں ؟ ۔۔۔۔بلکہ سو جاتے ہیں ۔۔۔۔ہاں ہاں ۔۔۔سو جاتے ہیں ۔۔۔قوم بھی تو سو رہی ہے؟؟

صدیاں


جاوید کے نام


حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کی تصنیف بال جبرئیل کی نظم "جاوید کے نام"

خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود
ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ !

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ