May 16, 2012

سقوط

سنتے آئے ہيں کہ تاريخ اپنے آپ کو دہراتي ہے? شايد بہت سے لوگوں کے ليے تاريخ ميں سوائے بوريت کے اور کچھ نہ ہو ليکن واقعہ يہ ہے کہ تاريخ کا مطالعہ نہ صرف آنے والے خطرات کي پيش بندي کا موقع فرہم کرتا ہے بلکہ وہ موجودہ حالات کو بھي ايک مختلف تناظر ميں متعارف کرا سکتا ہے? آج کل ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائي يا بڑھتي ہوئي خودکشياں نہيں بلکہ ايک ايسا معاملہ ہے جس ميں ہمارے ملک کي اعلي? ترين مقتدر شخصيات کا ملک دشمن سرگرميوں ميں ملوث ہونے کا انديشہ ہے?يہ معاملہ ہے ميمو گيٹ اسکينڈل کا (نہ چاہتے ہوئے بھي يہ مانگے کي اصطلاح استعمال کرني پڑ رہي ہے ورنہ صدر نکسن کا قصور اتنا بڑا نہ تھا کہ ايسي شرمناک حرکت اس سے منسوب کر دي جاتي) ? کہتے ہيں کہ ہمارے ملک کي اعلي? مقتدر ہستيوں نے امريکہ بہادر کے ايک جنرل کو لکھا (يا لکھوايا) کہ حضور آپ کي نظر کرم ہو تو ہم يہاں آپ کي من پسند انتظاميہ کھڑي کر ديں گے? اور جو کچھ آپ نے مانگا ہے وہ بلکہ جو آپ نہ بھي مانگيں وہ بھي آپ کي نذر کرتے ہيں بس ہميں اپني پسنديدگي کي سند دے ديں? يہ وہي مقتدر ہستياں ہيں جو پہلے يہ کہہ چکي ہيں کہ “کوليٹرل ڈيميج آپ امريکنوں کو پريشان کرتا ہے ہميں نہيں” يا “آپ ڈرون برسائے جاو? ہم منہ دوسري طرف کيے رہيں گے ليکن باہر باہر سے احتجاج بھي کريں گے”? مسلمانوں کي صفوں ميں غداروں کا ہونا کوئي نئي بات نہيں? ليکن مسلمان حکمران اپنے کافر آقا و?ں سے باقاعدہ خط و کتابت کے ساتھ غداري کے عہد و پيمان باندھ ليں اس کي مثال ہماري ذلت کي تاريخ ميں بھي بہت ہي کم ہے? آج ہم اس ميمو کو رو رہے ہيں کہ کس نے لکھا اور کيوں لکھا کس نے اس کو طشت از بام کيا اور کيوں کيا، ليکن مسلمانوں کي تاريخ پچھلے ??? سال سے چيخ چيخ کر کہہ رہي ہے کہ تب بھي کسي نے ايک ميمو لکھا تھا? اور مماثلت بس يہيں ختم نہيں ہو جاتي?
امير ابو عبداللہ غرناطہ ميں مسلمانوں کا آخري حکمران تھا? اندلس ميں آٹھ سو سالہ مسلم تاريخ کا آخري باب? اپنے باپ مولائے ابوالحسن کي پيٹھ پيچھے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے اقتدار کو عوامي حمايت دلانے کے ليے اس نے قسطيلہ (کاسٹائل) کي عيسائي افواج پر يکطرفہ چڑھائي کردي اور بري طرح شکست کھا کر جنگي قيدي بنايا گيا? قيد سے چھوٹا تو اس شرط کے ساتھ کہ اس کو غرناطہ کا اقتدار واپس دلايا جائے گا تاکہ وہ غرناظہ کي بغير کسي مزاحمت کے عيسائي حکومت ميں شامل ہونے کو يقيني بنائے? ابو عبداللہ نے واپس آنے کے بعد اپنے اقتدار کے آخري دن تک ہر روز شايد اسي کوشش ميں گزارا کہ وہ کس طرح زيادہ سے زيادہ مال اکٹھا کر لے اس سے پہلے کہ اقتدار چھوڑنا پڑے? اس کام ميں اس کے معاون اس کے وزرا ء اور امراء بھي تھے اور پورے حکمران طبقہ ميں مشکل ہي کوئي ہو جو اس بہتي گنگا ميں ہاتھ نہ دھو پايا ہو? اس تقريباً سات سال کے عرصے ميں لا تعداد دفعہ خط و کتابت ہوئي اور ان ميں سے کئي کو محفوظ کر ليا گيا، ڈاکٹر حقي حق نے اپني کتاب “ہوئے تم دوست جس کے” ميں ان کا ذکر کيا ہے اور نسيم حجازي کے “شاہين” سے تو ہماري اکثريت واقف ہي ہے? ان “ميمو جات” ميں کبھي تو امير ابو عبد اللہ نے لکھا کہ کسي شورش يا ہنگامہ کي صورت ميں غرناطہ کي حفاظت کي جائے کيونکہ ہم اپنے دفاع کے ليے آپ کي طرف ديکھتے ہيں? تو کبھي جوابي خط ميں فرڈينينڈ نے ابو عبد اللہ کو لکھا کہ تمہارے وزير ہم سے زيادہ کا مطالبہ کر رہے ہيں کيا تمہارے علم ميں نہيں؟ کبھي فرڈينينڈ نے ابو عبداللہ سے ايک خط ميں “ڈو مور” کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمہارے وزراء سے بات کرتے ہوئے تمہارے مفادات کو ترجيح ديتے ہيں? ليکن تم پر ہماري عنايات اسي وقت تک ہيں جب تک تم عيسائي حکمرانوں کے مفادات کا خيال رکھو? اور سگ ذہني کا پاتال وہ عبارت بھي موجود ہے جو مسلمان وزراء نے ايک مشترکہ خط ميں لکھي کہ اے شان والے بادشاہ، ہم تمہارے حضور حاضر ہو کر تمہارے ہاتھ چومنا چاہتے ہيں اور تمہارے جسم کا ہر وہ حصہ چومنا چاہتے ہيں جس کي کہ اجازت دي جائے تاکہ ان غلاموں کي وارفتگي تم خود ديکھ لو!
ليکن صحيح معنوں ميں اس دور کا “ميمو” اگر کسي خط کو کہا جا سکتا ہے تو وہ وہ کتابت ہے جو عبداللہ اور اس کے وزيروں نے غرناطہ کو عيسائي حکمرانوں کے حوالے کرنے کے عوض اپنے ليے مراعات کي ضمانت حاصل کرنے کے ليے کي تھي? اس خط ميں موجود چند شرائط يہ ہيں :
-سقوط غرناطہ کے وقت عبداللہ کو تين لاکھ ماراويد ( کرنسي) کي ادائيگي
-الميريا ميں زرخيز زمين
-شاہي خواتين کو زيورات اور بناو? سنگھار کي چيزيں فروخت کرنے کي اجازت
-عبداللہ اور اس کے امراء کے اموال محفوظ قرار ديا جانا
-الحمراء پر قبضہ کے وقت عبداللہ اور گورنر غرناطہ کو دس دس ہزار سکہ نقد ديے جانا
-جو کسان عبداللہ اور اس کے امراء کے ليے غلہ اگاتے ہيں ان کے تحفظ کي ضمانت
يہ خط ايک کافر بادشاہ کو ايک مسلمان بادشاہ کي طرف سے تھا? ايک ايسا مسلمان بادشاہ جس کے سامنے دو ميں سے ايک راستہ تھا? يا تو عيسائي قوت کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے اور اللہ کي نصرت پر بھروسہ رکھے?يا اس قوت کے سامنے سے ہٹ جائے اور اپني اور اپنے خاندان کي بہتري کا خيال کرے? بادشاہ نے دوسري راہ اختيار کي اور تاريخ گواہ ہے کہ وہ کوئي بہت زيادہ جيا بھي نہيں اور مرا بھي تو اس حال ميں کہ اس کي لاش دريا کے کنارے پڑي تھي اور گھوڑے اسے روند رہے تھے? اس خط کے 6 سال بعد غرناطہ پر اسلام کا پرچم غروب ہو گيا? اور اس دن سے لے کر آج کا دن ہے، اندلس ميں اسلام کبھي واپس نہيں آيا? عبداللہ پر شايد اس کي اوقات سے بڑي ذمہ داري آگئي تھي اور اس نے اس ذمہ داري سے ہر ممکن پہلو تہي کرتے ہوئے اپنے تحفظ کو مقدم رکھا? اس نے اپني عوام کو يقيناً يہ باور کرايا ہو گا کہ اس معاہدے ميں ہي ہماري بقاء ہے ورنہ ہمارا “تورا بورا” بنا ديا جائے گا? يا فرڈينينڈ ہميں “پتھر کے دور” ميں پھينک دے گا? اور سقوط کے معاہدے ميں بظاہر مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کيا گيا تھا مثلاً انہيں زبردستي عيسائي نہ بنائے جانے کي يقين دہاني اور ان کے جان و مال کا تحفظ ليکن عملاً ايک بار جب عيسائي قابض ہو گئے تو مسلمانوں کے ليے معاہدے کي کسي ايک شق پر بھي عمل کرانا ناممکن تھا? مسلمانوں کو زبردستي عيسائي بھي بنايا گيا اور ان کے جان و مال زبردستي چھينے بھي گئے? ليکن يہ شايد ان کي غفلت کي قيمت تھي کہ انہوں نے اپنے اس بادشاہ پر بھروسہ کيا تھا جس نے ان کو اقتدار ميں آنے سے پہلے ہي بيچ ديا تھا?
???? کے اندلس اور آج کے پاکستان ميں صرف يہي مماثلت نہيں ہے کہ ان کا بادشاہ بھي جيل سے نکال کر بادشاہ بنايا گيا تھا? يا اس کے بادشاہ بنائے جانے ميں بھي کسي پاور ڈيل کا دخل تھا? يا يہ کہ اس کے وزير کا نام بھي يوسف تھا? يا يہ کہ اس نے بھي اپني خودغرضي کو وسيع تر قومي مفاد کا نام ديا تھا? يا يہ کہ تب بھي ايک ميمو لکھا گيا تھا اور آج بھي? بلکہ ہمار ے ليے سب سے بڑي مماثلت يہ ہے کہ اس وقت کے عوام بھي اپنے کام دھندوں ميں لگے رہے? معاملات کي جو تصوير ان کو حکام نے دکھائي وہ ديکھي اور خبردار کرنے والوں کي بات پر کان بھي نہ دھرے? حکام شريعت سے روگرداني کرتے رہے ، مملکت کے دفاع کے سودے کرتے رہے اور عوام اپنے کام دھندوں اور کھيل تماشوں ميں لگے رہے? اس وقت بھي،آنے والے حالات کي سنگيني سے آگاہ کرنے والوں کو “ميسينجرز آف ڈوم” يا “تباہي کے قاصد” کہا گيا ہو گا? ليکن حقيقت يہ ہے کہ يہاں غرناطہ ميں اسلا م کا پرچم سرنگوں ہوا اور وہاں مسلمانوں کي کم بختي شروع? يہ منظر بھي تاريخ کے اوراق ميں موجود ہے کہ ايک طويل قطار ميں لوگ اپني باري کا انتظار کر رہے ہيں اور زار و قطار رو رہے ہيں کہ يہ لائن داڑھي کٹانے کے ليے ہے? اور يہ بھي کہ مسلمان پردہ دار بيبيوں کو بپتسمہ ديا جا رہا ہے? اور يہ بھي کہ مسجدوں ميں عيسائي فوجيوں کے گھوڑے بندھے ہيں ? اور “انکوئيزشن” کا نام تو غير مسلم مو?رخين کے سامنے بھي ليں تو وہ بھي کانپ جاتے ہيں?
پھر لکھتا ہوں، تاريخ پڑھنے سے مستقبل کانقشہ واضح ہوتا ہے? يہ سطريں صرف تفنن طبع کے ليے تحرير نہيں کي گئيں بلکہ اس خطرے سے آگاہ کرنے کے ليے ہيں جو ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے? اندلس کي تاريخ کے مطالعہ کے وقت ہميشہ يہي سوچ ذہن ميں رہتي تھي کہ کيا اس دور کي عوام اندھي تھي کہ اس کے سامنے اتنا بڑا کھيل ہو گيا اور اسے خبر بھي نہ ہوئي? ليکن آج ہمارے ساتھ بھي کچھ ايسے ہي کھيل کھيلے جا رہے ہيں? آج ہمارے ليے بجلي، گيس اور دوسري چيزوں کي قلت پيدا کر کے دھيان ان چيزوں ميں لگا ديا گيا ہے جيسے يہ دنيا کي سب سے ضروري چيزيں ہوں? دوسري طرف ايک سياسي تماشہ ہے جو کبھي نئےصوبوں کے نام پر اور کبھي انتخابي ہنگامے کے نام پر رچايا جاتا ہے? اس سب کے بيچ نيٹو کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہونے کي ادا بھي دکھائي گئي ہے جس سے انہيں ہم پر حملہ کرنے کا جواز ملتا نظر آرہا ہے? ليکن شايد ان سب سے بھيانک بات يہ ہے کہ گزشتہ کئي سالوں سے دھيرے دھيرے ہميں اس بات کا عادي بنايا جا رہا ہے کہ ہم کفر کے نيچے رہنے کے ليے راضي ہو جائيں? ہمارے ملک ميں ہر سال کئي لوگ اصلي اور جعلي طريقے سے بيرون ملک جا رہے ہيں اور وہاں مستقل رہائش اختيا رکر رہے ہيں اور جب وہ لوگ وہاں موجود سہوليات کا ذکر کرتے ہيں تو ہمارے يہاں موجود لوگوں کے دلوں ميں بھي ارمان پيدا ہوتا ہے کہ کاش ہمارے يہاں بھي ايسا ہوتا? لوگوں کي ايک کثير تعداد کي نظر ميں کاميابي کي معراج اميگريشن ہے? اس صورتحال ميں ہماري اکثريت کا کسي کافرانہ نظام کو قبول کر لينا بعيد از قياس نہيں? ليکن ياد رکھيے، ان طاقتوں کے اصول اپنے ليے کچھ اور ہيں اور ہمارے ليے کچھ اور? يہ تجربہ آج سے ??? سال پہلے اندلس کے اور پھر افريقہ کے مسلمانوں کو، اس کے بعد ريڈ انڈينز کو اور ماضي قريب ميں عراق اور افغانستان کے مسلمانوں کو ہو چکا ہے?
اس سال ? جنوري کو غرناطہ ميں اسلام کا پرچم سرنگوں ہوئے ??? سال ہو گئے? کفر کي چالبازياں اور مسلم حکمرانوں کي غدارياں اب بھي اس ملت کو لاحق ہيں? ليکن ہم سے ہمارے عمل کا ہي سوال کيا جائے گا ان کےنہيں? بحيثيت قوم ، ايک با کردار قيادت کي ضرورت جتني آج ہے اتني شايد پہلے کبھي بھي نہيں تھي? تاريخ کے اوراق ہميں با آواز بلند متنبہ کر رہے ہيں کہ امت مسلمہ نے جب بھي اپني قيادت کے ليے شريعت کے علاوہ کوئي اور معيار اختيار کيا تو اسےمنہ کي کھاني پڑي? وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم قيادت کے بارے ميں اپنے نظريات کو تبديل کريں اور با عمل علماء کو اس بات پر مجبور کريں کہ وہ حالات کي باگ ڈور سياسي مولويوں کے حوالے کرنے کي بجائے اپنے ہاتھ ميں ليں? بصورت ديگر حالات اگر اسي طرف چلتے رہے تو وہ دن دور نہيں لگ رہا جب، خاکم بدہن، اسلامي جمہوريہ پاکستان نہ اسلامي رہے نہ پاک بلکہ ايک جمہوري استھان بن کر رہ جائے? تب شايد ہميں ابو عبداللہ کي ما ں کي وہ بات سمجھ ميں آئے جو اس نے اپنے بيٹے کو روتے ديکھ کر کہي تھي کہ “جس زمين کي حفاظت تو مردوں کي طرح نہ کر سکا اب اس کے ليے عورتوں کي طرح آنسو کيوں بہاتا ہے”?
شايد ??? سال بعد تاريخ نے ايک ماں کا يہ سوال ہمارے سامنے دوبارہ لا کھڑا کيا ہے، کيا آپ کا جواب تيار ہے؟
نديم انصاري

No comments:

Post a Comment