Sep 30, 2010

اور یہ کہ میرا بولنا ذکر ہو اور میرا دیکھنا عبرت




    ''وہ نظروں کی خیانت جان جاتا ہے اور سینوں کے راز اس پر عیاں ہوتے ہیں''۔
    مسئلے کا آغاز چونکہ 'گرد وپیش میں پڑنے والی نگاہ' سے ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں قرآن میں غضِ بصر کا ذکر حفظِ فرج سے بھی پہلے آتا ہے۔
    حادثے جب بھی ہوتے ہیں ابتدا نگاہوں سے ہوئی ہوتی ہے۔ زیادہ تر آگ چھوٹی چھوٹی چنگاریوں سے بھڑکی ہوتی ہے جو کہ بالآخر آدمی کو اپنی زد میں لے لیتی ہے۔ 'نگاہ' اٹھتی ہے۔ پھر 'خیال' آجاتا ہے، پھر 'قدم' اٹھ جاتے ہیں اور پھر 'گناہ' ہو جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے جو شخص ان چار محاذوں پر پہرے بٹھا لے اس کا دِین محفوظ ہو جاتا ہے:
    نگاہیں،     خیالات،     کلمات     اور اِقدامات
    آدمی کو چاہیے وہ ان چار دروازوں پر آپ ہی اپنے نفس کا دربان بن کر کھڑا رہے۔ ان چاروں جہتوں سے جہاں کہیں کوئی رخنہ آجانے کی صورت بنے وہیں پر فوری ترین کارروائی کرڈالے۔ یہ طے ہے 'شخص' جب بھی داخل ہوگا یہیں کسی راستے سے اندر سرک آئے گا۔ البتہ اگر اسے اپنی افواج اندر لے آنے دیا گیا تب ضرور وہ یہاں کا سب کچھ تلپٹ کر جائے گا اور یہاں کی سب خوبصورت تعمیرات کو خاک میں ملا ڈالے گا۔
    پس زیادہ تر گناہوں کو نفس کی دُنیا میں در آنے کیلئے راستہ انہی چار دروازوں سے ملتا ہے۔ پس ہم اِن میں سے ہر ایک کی بابت علیحدہ علیحدہ کچھ گفتگو کریں گے۔
    جہاں تک 'نگاہ' کا تعلق ہے تو یہ بُری خواہشات کا ہر اول ہے اور اس کا تیز رفتار ترین ایلچی۔ اس سے تحفظ کر لینا ہی دراصل شہوتِ شر سے اپنا تحفظ کر لینا ہے۔ جو شخص اپنی نگاہ کو بے مہار چھوڑ دے وہ ضرور اسے بربادی کے کسی گڑھے میں پھینک کر آئے گی۔ نبی صلی اللہ علی وسلم خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک نظر کے پیچھے دوسری نظر مت جانے دو۔ پہلی پر تمہیں چھوٹ ہے، پر دوسری پر نہیں۔
    مسند میں روایت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا: نظر شیطان کے ترکش کا ایک بہت کاری تیر ہے۔ پس جو شخص کسی عورت کے محاسن پر جا پڑنے والی نگاہ محض اللہ کے خوف سے نیچی کر لے گا اللہ اس کے دِل میں (ایمان کی) ایک ایسی مٹھاس بٹھائے گا کہ جس کا مزہ روز ملاقاتِ خدواندی کہیں نہ جائے گا۔ یہ حدیث کا مفہوم ہے۔
    اسی طرح آپ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھا کرو اور عفت کا تحفظ کرو۔
    اسی طرح آپ صلی اللہ علی وسلم فرمایا: گزرگاہوں کے اندر براجمان ہو جانے سے اجتناب کرو۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم ہم (غریبوں) کو اس کے سوا بیٹھنے کی کوئی جگہ ہی میسر نہیں۔ فرمایا: ہاں تو اگر کوئی چارہ ہی نہیں تو گزرگاہ کو اس کا حق بہرحال دو۔ عرض کیا: گزرگاہ کا حق کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا۔ اذیت روک کر رکھنا اور سلام لوٹانا۔
    بیشتر نقصان جو انسان کے نفس کو لاحق ہوتے ہیں جس نقطے سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں وہ 'نظر' ہی ہے۔ 'نگاہ' 'خیال' کو جنم دیتی ہے۔ 'خیال' 'سوچوں' میں ڈھلتا ہے۔ 'سوچیں' 'خواہش' کو وجود میں لاتی ہیں۔ 'خواہش' 'ارادے' کو جنم دیتی ہے۔ 'ارادہ' جان پکڑنے لگے تو رفتہ رفتہ 'عزم' بننے لگتا ہے یہاں تک کہ 'فعل' واقع ہو جاتا ہے اِلاَّ یہ کہ فعل کے واقع ہونے میں کوئی اور چیز حائل ہو۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ نگاہ نیچی رکھنے پر صبر کر لینا اس سے کہیں آسان ہے کہ آدمی اس سے مابعد مراحل کی المناکی پر صبر کرے۔
    نگاہ ایک ایسا تیر ہے جسے آدمی چلاتا ہے مگر وہ کسی اور پر نہیں خود اسی پر چلتا ہے۔ اب یہ تم پر ہے اس تیر کو کتنا تاک کر اور کتنا کھینچ کر چلاتے ہو۔
    ذرا سوچ لیا کرو تمہارے ڈھیلے جب تمہاری آنکھوں کی مچان میں گھوم گھوم کر نشانے تاک رہے ہوتے ہیں کہ یہ تمہیں کن کن خطروں کے منہ میں دے آنے کیلئے پر تولتے ہیں اور کیسی کیسی تباہ کن مہمات پر تم کو روانہ کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔
    'نگاہ' کے ہاتھوں تم کسی تیر کی طرح اپنے ہاتھ سے نکل جاتے ہو اور کیا بعید تم کبھی اپنے آپ کو پھر واپس نہ ملو۔
    نظر کی آفتیں بے شمار ہیں۔ اب یہ کہ ہر ہر نگاہ تمہیں حسرتیں لا لا کر دے۔ کبھی ٹھنڈی آہیں بھرو۔ کبھی کسی ناقابل تکمیل خواہش پہ سو سو بار مرو۔ یعنی ایک چیز پر آدمی کو نہ قدرت اور نہ اس پر خبر۔ جبکہ خدا کی بخشش و ثواب اور خدا سے ملنے والے نعم البدل کی اُمید پہلے ہی نہ ہو۔ یہ اس نافرمانی کے عذاب کی پہلی نقد قسط ہے۔
    کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ آدمی نے نظر کا تیر چلایا اور اگلے ہی لمحے اُس نے اپنے آپ کو کسی خاردار جھاڑی کے اندر لہولہان پایا۔
    نگاہ ایک ایسا نشتر ہے جو آدمی کے اپنے ہی دِل پر لگتا ہے۔ آدمی اپنے دِل پر خود اپنے ہاتھوں چرکا لگاتا ہے اور پھر شفا پانے کی آس میں بار بار اسی کا اعادہ کرتا ہے۔
    اسی لئے کہا گیا ہے: نظروں پر قابو پانا حسرتوں کے دوام سے کہیں بہتر ہے''۔
    'خیالات' کی بابت پچھلے شمارے میں گفتگو ہو چکی۔
 
    رہے 'کلمات' تو ان کا تحفظ یہ ہے کہ آدمی زبان کو بے سود نہ چلنے دے۔ وہی بولے جو اس کے اندازے میں اسے کوئی نفع لا کر دے اور یا اس کے دین کا بھلا کر کے جائے۔ بولنے سے پہلے ہمیشہ تولے آیا یہ بول کر وہ کچھ نفع پانے والا ہے یا نہیں۔ اگر نفع کی کوئی اُمید نہیں تو چپ ہی بھلی۔ البتہ کوئی نفع ہے تو پھر یہ تولے آیا یہ بات کہہ دینے سے سے اس نے اپنے لئے بولنے کا موقع تو ختم نہیں کر لیا جو کہ اس سے بھی بڑھ کر نفع بخش ہو سکتا تھا؟ ایسا ہو تو 'یہ' بول کر 'وہ' بولنا اپنے حق میں فوت نہ کرلے۔
    تم اگر کبھی اندازہ لگانا چاہو کہ کسی دِل میں کیا کیا کچھ ہے تو اِس کا کچھ اندازہ تم آدمی کی حرکتِ زبان سے ہی کر سکتے ہو۔ 'زبان' ضرور کچھ نہ کچھ 'ِدل' کی خبر دے جاتی ہے، آدمی لاکھ چاہے یا نہ چاہے۔
یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں:
    ''قلوب کیا ہیں ہانڈیاں ہیں جو دھری ہوئی ہیں۔ ان میں وہی کچھ جوش کھاتا ہے جو کچھ کہ ان میں ہے۔ زبانیں وہ کف گیر ہیں جن سے پکوان کچھ نہ کچھ باہر انڈیل لیا جاتا ہے''۔
    پس آدمی کو دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھو جب وہ بولتا ہے۔ وہ کبھی اپنے اس 'پکوان' کا مزہ چکھائے بغیر نہ رہے گا۔ صاف پتہ چلے گا جو اندر پک رہا ہے میٹھا ہے یا ترش۔ خوش مزہ ہے یا بدذائقہ۔
صحابہ رسول صلی اللہ علی وسلم انس رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں:
    آدمی کا ایمان درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دِل درست نہ ہو جائے۔ آدمی کا دِل درست نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو جائے''۔
    آپ صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سی چیز سب سے زیادہ انسانوں کو جہنم میں داخل کرائے گی؟
    فرمایا: زبان اور شرمگاہ (ترمذی، حدیث حسن صحیح)
    معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علی وسلم سے اسلام کی اساس اور عمود اور کوہان کی چوٹی کی بابت جاننا چاہا تب آپ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیز ہی نہ بتا دوں جو اس سب کا ملوکِ امر ہے؟ کہا ارشاد فرمائیے اللہ کے رسول صلی اللہ علی وسلم! تب آپ صلی اللہ علی وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر دکھائی اور فرمایا: بس اس کو تھام رکھو۔ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال کیا: تو کیا ہم اپنے بولنے پر ہی پکڑے جائیں گے!؟ فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے ارے او معاذ! تو کیا لوگوں کو ان کے چہروں کے بل ___ ایک روایت میں، ان کے نتھنوں کے بل ___ گرانے والی ان کی زبانوں کی کمائی کے سوا کوئی اور بھی چیز ہوگی؟! (ترمذی، حدیث حسن صحیح)
    عجیب بات یہ ہے کہ آدمی پر حرام کھانے سے بچ رہنا آسان ہے۔ ظلم و طغیانی، چوری چکاری اور شراب خوری اور نظرِ حرام ایسے امور سے مجتنب رہنا آسان دیکھا گیا ہے۔ لیکن زبان کو قابو رکھنا بسا اوقات مشکل تر۔ اور تواور ایسے ایسے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ دینداری اور زہد اور عبادت گزاری میں مثال جانے جاتے ہیں پر زبان کی نوبت آتی ہے تو وہ کچھ بول جاتے ہیں جو اللہ کو سخت ناپسند ہو اور جو انہیں عذاب میں جھونک آنے کیلئے کافی ہو۔
    کتنے ہی پرہیزگاروں کو آپ دیکھیں گے کہ بدکاریوں اور گناہوں سے کوسوں دور رہتے ہیں مگر زبان ہے جو زندوں کی چغلیوں سے تو کیا رکے گی مرے ہوئے لوگوں کو بے آبرو کرنے سے نہ ہٹے گی۔ پرواہ تک نہ ہوگی کہ حضرت کہہ کیا رہے ہیں۔
    ایک بے سوچا سمجھا جملہ آدمی کو کیسے کیسے مروا ڈالتا ہے، دیکھیے صحیح مسلم میں جندب بن عبداللہ کی حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے: ایک آدمی بولا: بخدا، فلاں آدمی کو خدا کبھی معاف نہ کرے گا۔ تب خدا تعالیٰ نے فرمایا: یہ ہوتا کون ہے جو اپنی طرف سے مجھ پر بات کرے کہ میں فلاں شخص کو کبھی معاف نہیں کروں گا؟ جاؤ میں نے اسے معاف کیا البتہ تمہارا سب عمل غارت کردیا۔
    کیا معلوم اس عبادت گزار نے کتنی کتنی عبادت کی ہوگی۔ زبان سے نکلا ہوا ایک کلمہ سب کیا کرایا غارت کرا بیٹھا۔
    ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں بھی ایسا ہی مروی ہوا ہے۔ جس کے بعد ابوہریرہ کہتے ہیں: ''ایک ہی کلمہ اس کی دُنیا اور آخرت برباد کرگیا''۔
    صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا:
    ''آدمی خدا کی خوشنودی والی کوئی ایک بات کر دیتا ہے جسے بولتے وقت اس کا سان گمان تک نہیں ہوتا مگر اس کے سبب اللہ اس کے درجات بلند کرتا جاتا ہے۔ آدمی خدا کی ناراضگی کی کوئی بات کر دیتا ہے جسے بولتے وقت اس کا سان گمان تک نہیں ہوتا مگر وہ اس کے سبب جہنم میں اترتا ہی چلا جاتا ہے''۔
    جبکہ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: ''آدمی ایک بات بول دیتا ہے اور دیکھتا تک نہیں اس میں کہہ کیا دیا گیا ہے، جس کے سبب وہ جہنم میں اتنی دور تک لڑھکتا چلا جاتا ہے کہ شاید مشرق اور مغرب کا فاصلہ بھی اس سے کم ہو''۔
ترمذی میں بلال بن حارث مزنی نبی صلی اللہ علی وسلم سے روایت کرتے ہیں:
    ''تم میں سے کوئی شخص کبھی خدا کی خوشنودی کی بات کر لیتا ہے جبکہ اس کو گمان تک نہیں ہوتا کہ اس کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچیں گے تب اللہ اس کے بدلے اپنی خوشنودگی اسکے لئے اپنے روزِ ملاقات تک کیلئے لکھ چھوڑتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی خدا کو ناراض کرنے والی کوئی ایک بات کر بیٹھتا ہے جبکہ اس کو گمان تک نہیں ہوتا کہ اس کے اثرات کی نوبت کہاں کہاں پہنچے گی۔ تب اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اپنی خفگی اس کیلئے اپنے روز ملاقات تک کیلئے لکھ چھوڑتا ہے''۔
    اس مذکورہ بالا حدیث کی بابت، علقمہ کہا کرتے تھے: ''بڑے بڑے لفظ میرے منہ پر آئے ہوئے بلال بن حارث کی اس ایک حدیث نے روک دیے''۔
    ترمذی میں ہی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ صحابہ میں سے ایک آدمی فوت ہوا۔ تب ایک آدمی نے کہا: جنت مبارک ہو! تب رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم؟ کیا پتہ اس نے کچھ بے سروکار بولا ہو یا ایسی چیز یا ایسی بات میں بخل کیا ہو جس کے کرنے سے اس کا کچھ بھی نہ گھٹتا''۔ (ترمذی نے اسے حدیث حسن کہا ہے)
    ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ایک نوجوان نے یومِ اُحد شہادت پائی۔ اس کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا پایا گیا جو اس نے بھوک سے باندھ رکھا ہوگا۔ اس کی ماں اس کے چہرے سے مٹی پونچھتی ہوئے کہہ رہی تھی: مبارک ہو بیٹا جنت تمہاری ہوئی۔ تب نبی صلی اللہ علی وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ شاید اس نے کچھ بے سروکار بولا ہو یا وہ چیز دینے سے انکاری ہوا ہو جس کے دے دینے میں اس کو کوئی نقصان نہ ہوتا۔
    صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوع روایت ہے: ''جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے''۔
    مسلم کے الفاظ ہیں: ''جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ جب کسی موقع مناسبت پر حاضر ہوتا ہے تو وہاں اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے''۔
    ترمذی نے صحیح اسناد کے ساتھ نبی صلی اللہ علی وسلم سے روایت کی: ''آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی امور سے مجتنب ہو''۔
    سفیان بن عبداللہ ثقفی سے روایت ہے، کہا: میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم! اسلام میں مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جو آپ صلی اللہ علی وسلم کے بعد میں کسی سے نہ پوچھوں۔ فرمایا: کہو: ایمان لایا میں، پھر اس پر استقامت پکڑو۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علی وسلم میرے لئے کیا خدشہ دیکھتے ہیں؟ تب آپ صلی اللہ علی وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ''یہ''
    اُم المومنین ام حبیبہ نبی صلی اللہ علی وسلم سے روایت کرتی ہیں: ''ابن آدم کا بولا ہوا ہر لفظ اس کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جاتا ہے، سوائے یہ کہ وہ نیک کام کا کہے یا بُرائی سے روکے یا اللہ عزوجل کا تذکرہ کرے۔ ترمذی نے اسے حدیث حسن کہا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے: صبح ہوتی ہے تو سب اعضا زبان کو جھڑکتے ہیں اور اسے کہتے ہیں: ہمارے معاملے میں خدا سے ڈرنا۔ ہم تمہارے ساتھ وابستہ ہیں۔ تم سیدھی رہو تو ہم بھی سیدھا رہیں گے۔ تم ٹیڑھ پن میں پڑو تو ہم بھی ٹیڑھ پن کا شکار ہو جائیں''۔
    سلف صالحین کا حال یہ تھا کہ وہ ایسے ناقابل التفات جملوں تک پر اپنا احتساب کر لیا کرتے تھے کہ مثلاً: افوہ کیسا گرم دِن ہے یا کیسا سرد دِن ہے۔ اہل علم میں سے کوئی بزرگ شخصیت کسی کو خواب میں نظر آئی۔ پوچھا گیا کیسا معاملہ رہا؟ کہا ایک کلمہ ایک بار زبان سے کہہ بیٹھا تھا اس کی وجہ سے روک لیا گیا۔ میں نے کہہ دیا تھا ''لوگ بارش کے کس قدر ضرورت مند ہیں''۔ مجھے کہا گیا: تم بہت جانتے ہو؟ میں خود اپنے بندوں کی ضرورت بہتر جانتا ہوں۔
    سلف اور خلف کے ہاں اس پر اختلاف رائے پایا گیا ہے کہ آیا انسان کا بولا ہوا ہر لفظ لکھ لیا جاتا ہے یا صرف خیر اور شر کی بات لکھی جاتی ہے؟ اس پر دو رائے ہیں مگر پہلی رائے کا قوی ہونا ظاہر تر ہے۔
    سلف میں سے کسی کا قول ہے: ابن آدم کی بولی ہوئی ہر بات اس کے خلاف پڑتی ہے نہ کہ اس کے حق میں سوائے وہ بات جو خدا کے متعلق سے آئی ہو۔
    ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی زبان پکڑ کر کہا کرتے تھے۔ اس نے مجھے بڑی بڑی مشکلوں میں ڈالا۔ تمہارے لفظ تمہارے قیدی ہیں۔ البتہ جب تمہارے منہ سے نکل جائیں پھر تم ان کے قیدی ہو۔ اور اللہ ہر بولنے والے کی زبان پر اپنے پہرے دار رکھے ہوئے ہے۔ ما یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیہِ رَقَیْبٌ عَتِیْدٌ (ق: 18)
    زبان کے معاملے میں دو آفتیں پائی جا سکتی ہیں۔ آدمی ایک سے بچ جائے تو دوسری میں جا پڑتا ہے۔ یا 'بولنے' کی آفت اور یا پھر 'چپ سادھ لینے' کی آفت۔ ہو سکتا ہے ان میں کسی وقت ایک آفت زیادہ مہلک اور آدمی کو گناہ میں ڈال آنے والی ہو اور کسی وقت دوسری۔ پس جو شخص حق سے خاموشی اختیار کرتا ہے وہ گونگا شیطان ہے۔ اللہ کا صاف نافرمان ہے۔ ریاکار ہے اور اللہ کو ناراض کر لینے کی قیمت پر انسانوں کے ساتھ اچھا بننے (مداہنت) کا مرتکب، ہاں البتہ اگر اسے اپنی عافیت کا خدشہ لاحق ہو تو اور بات ہے۔ دوسری طرف، باطل بات بولنے والا شیطانِ ناطق ہے اور اللہ کا پکا نافرمان۔
    اکثر مخلوق کا حال یہ ہے کہ بولنے کا معاملہ ہو تو حق سے انحراف ہوتا ہے اور چپ رہنے کا معاملہ ہو تو حق سے انحراف۔ جبکہ اہلِ وسط جو کہ اہلِ صراط مستقیم میں یہ وتیرہ اختیار کرتے ہیں کہ باطل سے اپنی زبانوں کو روک لینے کا تو پورا اہتمام ہوتا ہے البتہ ان خاص امور میں جو ان کو اخروی فائدہ لا کر دیں اپنی زبانوں کو پوری چھوٹ دیتے ہیں۔ پس آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بولتے ہیں مگر ان کا بولا ہوا کوئی ایک لفظ بھی بے سود خرچ نہیں ہوا ہوتا بلکہ ایک ایک لفظ ان کو منفعت لا کر دیتا ہے اور ایک ایک لفظ میزان میں لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ زبان کے استعمال میں وہ کبھی گھاٹا کما کر نہیں آتے۔ جبکہ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ زبان وہ چیز ہے جو گھاٹا کھانے یا نفع پہنچانے کا ایک خاص اوزار ہے۔ ایسے ایسے لوگ قیامت کے روز آئیں گے کہ نیکیاں پہاڑوں سے بڑھ کر ہوں گی مگر دیکھتے ہی دیکھتے زبان کی کارگزاری کے ہاتھوں یوں چٹیل اور روپوش دیکھے جائیں گے کہ گویا تھے ہی نہیں۔ اسی پر بس نہیں نیکیوں کے پہاڑ دیکھتے ہی دیکھتے بدی کے پہاڑوں سے بدل جائیں گے۔ جبکہ ایسا بھی ہوگا کہ گناہوں کے پہاڑ ہوں گے مگر زبان کے بولے ہوئے اچھے کلمات جو کہ خدا کے ذکر وتعظیم میں کہے گئے ہوں یا حق کی نصرت واعانت میں، ان سب کو بے وزن کر جائیں گے۔

    رہ گئے 'قدم' تو ان کا تحفظ یہ ہے کہ ان کو صرف اسی سمت میں اٹھنے دیا جائے جہاں سے خدا کی خوشنودی و ثواب کی آس ہو۔ ان کا سارا زور ادھر کو رکھے جدھر سے جنت کی خوشبو آتی ہو۔ قدموں کو مشقت کرانے میں جہاں سے کوئی ثواب اور دین ودنیا کا کوئی فائدہ متوقع نہیں اس طرف کو جانے سے بیٹھ رہنا بہتر۔ بہت سے جائز امور جن کی طرف تمہارے قدم روز بھاگتے ہیں اور تمہیں کشاں کشاں لئے جاتے ہیں اور اتنی ڈھیر ساری مشقت اٹھانے کے بعد کوئی رتی بھر ثواب پائے بغیر یہ تمہیں واپس دھرتے ہیں، ایسے جائز امور کی بابت تم کیوں ایسا نہیں کر لیتے کہ انہی کو خدا کے تعلق سے نیکیاں بنا ڈالو اور انہی کے اندر خدا کی بندگی کے معانی پیدا کرلو۔ تب تمہارا ہر قدم نیکی بنے اور ہر قدم اٹھنے کے ساتھ تم خدا سے قریب تر ہوتے جاؤ۔ نری مشقت کرتے رہنے کا بھلا کیا فائدہ؟!
    آدمی کا ٹھوکر کھا جانا چونکہ دو طرح سے ہے: ایک وہ جو 'پیر' کو لگتی ہے اور دوسری وہ جو 'زبان' کو لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ دیکھیے کس خوبصورتی سے قرآن میں دونوں کی جانب ایک ہی مقام پر ارشاد کردیا گیا:
    
وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھوناً و إذا خاطبہم الجٰھلون قالوا سلاماً (الفرقان: ١٩)
    ''رحمن کے بندے وہ ہیں جو آہستگی و وقار کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے کہ تم کو سلام''۔
    چنانچہ یہاں عباد الرحمن کا جو وصف بیان ہوا وہ یہ کہ ایک راستی اور استقامت وہ اپنے 'لفظوں' کے اندر رکھتے ہیں اور ایک راستی اور استقامت وہ اپنے قدموں کے اندر۔
اسی طرح ایک دوسری آیت کے اندر 'نگاہوں' اور 'خیالوں' کا تذکرہ ایک ساتھ کردیا گیا ہے، فرمایا:
    یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الاَعْیُنُ وَمَا تُخْفِیْ الصُّدُوْرُ (غافر: ١٩)
    ''وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو (خوب) جانتا ہے''۔

No comments:

Post a Comment