شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دہلی میں قحط پڑا ، بارش نہیں ہورہی تھی، دریاﺅں اور بہروں کا پانی خشل تھا، حتیٰ کہ درخت بھی خشک ہوگئے تھے۔ لوگ پریشان تھے کہ فصلیں نہیں ہورہی۔ قحط سالی کی وجہ سے چرند پرند بھی پریشان ہوگئے۔ سب عوام، علماءاور صلحاءبھی شہر سے باہر آگئے، سب نے نماز استسقاءپڑھی اور دعا مانگی مگر پھر بھی بارش کے آثار ظاہر نہ ہوئے۔ اسی اثناءمیں ایک نوجوان اپنی والدہ کو لے کر قریبی راستے سے گزر رہا تھا، اس نے لوگوں کو اکٹھا دیکھا تو قریب آیا اور سواری سے اتر کر پوچھاکہ لوگ کیوں جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا قحط سالی ہے، رحمت کی بارش مانگ رہے ہیں، سب معافی مانگ رہے ہیں مگر بارش کے آثار ظاہر نہیں ہورہے۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا، وہ نوجوان گیا اور اپنی والدہ کی چادر کا کونہ پکڑ کر اس نے چند الفاظ کہے۔ اس نوجوان کے وہ الفاظ کہنے ہی تھے کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور خوب بارش برسنا شروع ہوگئی۔ علماءو صلحاءاور دوسرے لوگ حیران ہوئے کہ اتنے لوگوں نے توبہ کی مگر رحمت کی بارش نہ برسی، اس نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان! ہمیں بھی ذرا بتا کہ تیرے وہ کون سے الفاظ تھے جنہوں نے رحمت الٰہی کو کھینچ لیا، تو وہ کہنے لگا میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو تقیہ، نقیہ اور پاک صاف زندگی گزارچکی ہے، میں نے جا کر اس کی چادر کا کونہ پکڑا اور کہا اے رب کریم! یہ میری وہ ماں ہے جس نے پاکدامنی کی زندگی گزاردی ہے۔ آپ کو اس کی پاکدامنی کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ رحمت کی بارش برسا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً رحمت کی بارش برسادی۔ [اقتباس-کتنے بڑے ہیں حوصلے پروردگار کے
No comments:
Post a Comment