ایک باپ بیٹے کی کہانی !
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔
ہرروز کی طرح آج بھی وہ اپنے باپ کے ساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو ۔
ابا جی ماں اپنے بچے کو دو چار سال تک سنبھالتی ہے۔ پھر اللہ کی ذات ماں کو وہ مقام دے دیتا ہے کہ جنت قدموں کے نیچے رکھ دیتا ہے۔
ابا جی میں تو دس سال سے آپ کی دیکھ بھال کر رہا ہوں ۔
کھلاتا ہوں، نہلاتا ہوں ،صفائی کرتا ہوں، زخموں پر مرہم رکھتا ہوں پھر تو میرا درجہ بھی ماں کا ہوا۔
"تیری مہربانی ہے "کے الفاظ جو اس کے کانوں میں پڑے تو بھونچکا رہ گیا۔ جلد ی میں اس نے صفائی کا کام مکمل کیا۔ ابا جی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور پلنگ پر لٹا کر ڈریسنگ کی کٹ نکال کر پہلے کمر پھر پاؤں میں گہرے زخموں کو صاف کیا اور مرہم لگانے کے بعد بند کر دیا ۔
سامان سمیٹنے میں ایسے جلدی کر رہا تھا جیسے بہت ارجنٹ میٹنگ کا بلاوہ آیا ہو۔
وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اباجی کے کمرے سے نکل کر سگریٹ ہاتھ میں لئے باہر صحن میں چلا گیا ۔
بیوی آوازیں دیتی رہ گئی۔
جی سنئے !
کھانا لگا دوں کیا ۔
مگر آج اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ صرف ایک آواز کے سوا " تیری مہربانی ہے "
وہ سگریٹ کو سلگا کے گہرے گہرے کش ایسے لے رہا تھا جیسے کوئی دو دن کا بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
وہ بار بار اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ تجھے روز ایسے ہی ابا جی سے باتیں کرنے کی عادت ہے۔ یہ سوچ کر کہ وہ کب سمجھتے ہیں ان باتوں کو۔ الزائیمر کی بیماری نے ان کا سارا اعصابی نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
آنکھوں میں روشنی باقی تھی یا صرف کھانے پینے کا نظام انہضام کام کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ تو پورا وجود ایک گوشت پوست کے لوتھڑے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ سے گناہ ہوا ۔ اباجی تو ایک سال سے ایک لفظ نہیں بولے۔ اتنی بڑی بات" تیری مہربانی ہے" کے الفاظ اس پر اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ وہ اپنے قدموں کواٹھانا چاہتا مگر وہ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔
باپ کا بیٹے کو کہہ دینا کہ" تیری مہربانی ہے " بیٹے کی خدا کے حکم سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔
وہ سوچتا ابھی تک تو میں اپنے اباجی کا حق ہی نہیں ادا کر پایا ۔ پھر میری مہربانی کیسی !
گہرے خیالوں میں کتاب ماضی سے ورق الٹ الٹ کر اس کی نظروں کے سامنے آرہے تھے۔
کہ اباجی نے اسے کیسےمحبت سے پال پوس کر بڑا کیا ۔
جب کبھی دوستوں کی محفل رات گئے جاری رہتی۔ تو باون سال عمر میں بڑا اس کا باپ رات بھر ٹہلتا رہتا۔ ماں سے کہتا تیری ہی دی گئی ڈھیل ہے جو وہ دیر تک گھر سے بھی باہر رہنے لگا ہے۔
جب وہ گھر کے دروازے پر دبے پاؤں پہنچتا ۔ تو ابا جی کی آواز آتی بیٹا خیریت تھی اتنی دیر لگا دی۔
پہلے سے تیار ایک نیا بہانہ سنا کر جلد کچن تک جاتا۔ ماں بھی پیچھے پیچھے وہیں آجاتی۔ سالن گرم کرتی اور ساتھ ہی کلاس شروع ہو جاتی۔ تیرے اباجی بہت غصے میں تھے ۔
مگر ماں مجھے تو کچھ نہیں کہا!
یہی تو ان کا مسئلہ ہے۔ مجھ ہی کو سناتے رہتے ہیں کہ میرے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہےخود بھی تو کبھی کچھ نہیں کہا ۔
لیکن ماں گھر میں اکیلا کیا کروں ------------------------------ ------
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔
ہرروز کی طرح آج بھی وہ اپنے باپ کے ساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو ۔
ابا جی ماں اپنے بچے کو دو چار سال تک سنبھالتی ہے۔ پھر اللہ کی ذات ماں کو وہ مقام دے دیتا ہے کہ جنت قدموں کے نیچے رکھ دیتا ہے۔
ابا جی میں تو دس سال سے آپ کی دیکھ بھال کر رہا ہوں ۔
کھلاتا ہوں، نہلاتا ہوں ،صفائی کرتا ہوں، زخموں پر مرہم رکھتا ہوں پھر تو میرا درجہ بھی ماں کا ہوا۔
"تیری مہربانی ہے "کے الفاظ جو اس کے کانوں میں پڑے تو بھونچکا رہ گیا۔ جلد ی میں اس نے صفائی کا کام مکمل کیا۔ ابا جی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور پلنگ پر لٹا کر ڈریسنگ کی کٹ نکال کر پہلے کمر پھر پاؤں میں گہرے زخموں کو صاف کیا اور مرہم لگانے کے بعد بند کر دیا ۔
سامان سمیٹنے میں ایسے جلدی کر رہا تھا جیسے بہت ارجنٹ میٹنگ کا بلاوہ آیا ہو۔
وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اباجی کے کمرے سے نکل کر سگریٹ ہاتھ میں لئے باہر صحن میں چلا گیا ۔
بیوی آوازیں دیتی رہ گئی۔
جی سنئے !
کھانا لگا دوں کیا ۔
مگر آج اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ صرف ایک آواز کے سوا " تیری مہربانی ہے "
وہ سگریٹ کو سلگا کے گہرے گہرے کش ایسے لے رہا تھا جیسے کوئی دو دن کا بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
وہ بار بار اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ تجھے روز ایسے ہی ابا جی سے باتیں کرنے کی عادت ہے۔ یہ سوچ کر کہ وہ کب سمجھتے ہیں ان باتوں کو۔ الزائیمر کی بیماری نے ان کا سارا اعصابی نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
آنکھوں میں روشنی باقی تھی یا صرف کھانے پینے کا نظام انہضام کام کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ تو پورا وجود ایک گوشت پوست کے لوتھڑے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ سے گناہ ہوا ۔ اباجی تو ایک سال سے ایک لفظ نہیں بولے۔ اتنی بڑی بات" تیری مہربانی ہے" کے الفاظ اس پر اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ وہ اپنے قدموں کواٹھانا چاہتا مگر وہ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔
باپ کا بیٹے کو کہہ دینا کہ" تیری مہربانی ہے " بیٹے کی خدا کے حکم سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔
وہ سوچتا ابھی تک تو میں اپنے اباجی کا حق ہی نہیں ادا کر پایا ۔ پھر میری مہربانی کیسی !
گہرے خیالوں میں کتاب ماضی سے ورق الٹ الٹ کر اس کی نظروں کے سامنے آرہے تھے۔
کہ اباجی نے اسے کیسےمحبت سے پال پوس کر بڑا کیا ۔
جب کبھی دوستوں کی محفل رات گئے جاری رہتی۔ تو باون سال عمر میں بڑا اس کا باپ رات بھر ٹہلتا رہتا۔ ماں سے کہتا تیری ہی دی گئی ڈھیل ہے جو وہ دیر تک گھر سے بھی باہر رہنے لگا ہے۔
جب وہ گھر کے دروازے پر دبے پاؤں پہنچتا ۔ تو ابا جی کی آواز آتی بیٹا خیریت تھی اتنی دیر لگا دی۔
پہلے سے تیار ایک نیا بہانہ سنا کر جلد کچن تک جاتا۔ ماں بھی پیچھے پیچھے وہیں آجاتی۔ سالن گرم کرتی اور ساتھ ہی کلاس شروع ہو جاتی۔ تیرے اباجی بہت غصے میں تھے ۔
مگر ماں مجھے تو کچھ نہیں کہا!
یہی تو ان کا مسئلہ ہے۔ مجھ ہی کو سناتے رہتے ہیں کہ میرے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہےخود بھی تو کبھی کچھ نہیں کہا ۔
لیکن ماں گھر میں اکیلا کیا کروں ------------------------------
__________________
رحمتوں کی سوغات ہے یہ جہان آب و تاب کرنوں کی برسات ہے یہ مہتاب و آفتاب
رحمتوں کی سوغات ہے یہ جہان آب و تاب کرنوں کی برسات ہے یہ مہتاب و آفتاب
No comments:
Post a Comment